Maktaba Wahhabi

181 - 250
اِس بناء پر مکتب تفسیر بالمأثور کے نزدیک یہ قاعدہ ہے: ’’ فهم السلف للقرآن حجة يحتكم اليه لا عليه‘‘ ’’سلف کا فہمِ قرآن حجت ہے، ان کے فہم سے فیصلہ حاصل کیا جائے گا نہ کہ ان کے فہم کے خلاف فیصلہ چسپاں کیا جائے گا۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ فالواجب أن يعرف اللغة والعادة والعرف الذي نزل في القرآن والسنة، وما كان الصحابة يفهمون من الرسول عند سماع تلك الألفاظ، فبتلك اللغة والعادة والعرف خاطبهم اللّٰه ورسوله‘‘ [1] ’’قرآن و سنت میں نازل ہونے والے عرف و عادت اور لغت کو پہچاننا ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفاظ سنتے ہوئے صحابہ کرام جو مفہوم مراد لے لیتے تھے، اسے پہچاننا بھی ضروری ہے، کیونکہ انہی کے عرف و عادت اور لغت کے مطابق اللہ عزوجل اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مخاطب ہوئے۔ (4) تفسیرِ قرآن عرب امیین کے ہاں معروف معانی و اسالیب کے مطابق ہو گی نہ کہ جدید اصطلاحات کے مطابق بعض لوگ قرآن مجید کی تفسیر میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ فلسفہ و علم الکلام کی جدید اصطلاحات، سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات اور اس طرح کے دیگر علوم بھی ان کے نزدیک فہم قرآن کے لیے ضروری ہیں۔ تفسیر قرآن بنیادی طور پر مراد الٰہی کی تعیین کا نام ہے جو کہ حقیقتاً عہد نبوی میں طے ہو چکی ہے۔ اب مزید استنباطات و استخراجات اور لطائف و معارف کا دروازہ تو کشادہ ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ صحابہ و تابعین کے مخالف نہ ہو، لیکن بنیادی معنی اور منشاءِ ربانی کے تعین کے لیے جدید اصطلاحات اور پیچ در پیچ موشگافیوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
Flag Counter