Maktaba Wahhabi

224 - 250
نیز مذکورہ بالا علوم کو اگر بالاختصار، ایک دوسرے میں تداخل و انضمام کے حوالے سے دیکھا جائے تو درج ذیل بنیادی پانچ علوم ہی ایک مفسر کے لیے ضروری قرار پاتے ہیں: 1۔ علوم عربیت 2۔ علم عقیدہ 3۔ علم فقہ و اصول فقہ 4۔ علم تاریخ و امم ماضیہ 5۔ علم حدیث امام سیوطی کا آخری بیان کردہ علم ہر میدان کے لیے بدیہی و فطری تقاضا ہے، یہ کوئی کسبی و اختیاری علم نہیں، بلکہ محض توفیقِ الٰہی، الہام ربانی اور خداداد فطری صلاحیت ہے، یہ اللہ تعالیٰ جس کو جس قدر چاہے نصیب فرما دے۔ تفسیر بالرأی المحمود کی نمائندہ تفاسیر اس موضوع کے اختتام سے پہلے مناسب ہو گا کہ تفسیر بالرأی المحمود کی چند نمائندہ تفاسیر کے نام ذکر کر دئیے جائیں۔ مفاتيح الغيب،امام رازی[1] أنوار التنزيل وأسرار التأويل،قاضی بیضاوی[2] مدارك التنزيل و حقائق التأويل،النسفی[3] اردو زبان میں مولانا ابو الکلام آزاد کی ترجمان القرآن، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی، مولانا عبدالماجد کی تفسیر ماجدی، مولانا عبدالحق حقانی کی تفسیر حقانی بھی مؤلف کے نزدیک تفسیر بالرأی المحمود سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بات البتہ ضرور قابل ذکر ہے کہ کسی تفسیر کو ’’تفسیر بالرأی المحمود‘‘ میں شمار کرنے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اس میں موجود تمام آراء و اقوال اور اجتہادات صائب ہیں، کیونکہ مفسر بحیثیت انسان بہرحال خطا و نسیان کا پُتلا ہے۔ اس کی بیان کردہ تفسیری آراء میں خطا کا امکان پوری طرح موجود رہتا ہے۔
Flag Counter