Maktaba Wahhabi

223 - 250
(15) علم الموھبۃ، یعنی فطری صلاحیت، تقویٰ و للہیت اور ذہانت و فطانت درج بالا تمام علوم کے لیے خشیت اول اور بنیاد ہے۔ تجزیہ درج بالا فہرست میں علم الفقہ کا تذکرہ نہیں کیا گیا، حالانکہ آیات اور احکام کا صحیح فہم اس کے بغیر محال ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ علوم فہم قرآن میں مختلف درجات کے حامل ہیں، کچھ زیادہ اہم ہیں اور کچھ کم، نیز کسی موقع پر ایک علم کی زیادہ ضرورت ہے تو دوسرے مقام پر کسی دوسرے کی، یعنی ان علوم کی اہمیت مضامین قرآن مجید اور کلام الٰہی کے محتویات پر منحصر ہے۔ البتہ علوم عربیہ کی اہمیت بہرطور مسلم ہے۔ مزید غور کیا جائے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ تفسیر قرآن میں مذکور علوم کی فہرست میں تاریخی لحاظ سے بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ مثلاً عہد نبوی میں صحابہ کے لیے اور طرح کے مصادر و مآخذ درکار تھے اور عہد تابعین میں سابقہ مصادر و مآخذ کے ساتھ اقوال صحابہ کا بھی اضافہ ہو گیا، اس طرح چلتے چلتے عصر حاضر میں قرآنی تاریخ و قصص کی تحقیق میں علم آثار قدیمہ اور آفاق و نفس سے متعلقہ آیات کی تفہیم میں جدید حاصل شدہ بنیادی معلومات بھی بہرحال مفصل تشریح و تعبیر میں معاون ہیں۔ اسی طرح عہد صحابہ و تابعین میں امم سابقہ کے واقعات کی تشریح میں اسرائیلی روایات سے استفادہ کیا جاتا تھا، جبکہ بعض جدید مفسرین نے براہ راست بائبل کے حوالہ جات دئیے ہیں۔ بالخصوص برصغیر کے تفسیری ادب میں تفہیم القرآن، تفسیر حقانی اور تفسیر تدبر القرآن میں بالخصوص یہ اسلوب استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اور حوالے سے اگر دیکھا جائے تو مذکورہ علوم میں سے ہر علم ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے اس وقت ایک باقاعدہ اور منظم مستقل علم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، ان میں کسی ایک علم میں بھی بیک وقت مہارت تامہ حاصل کرنا ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اس بناء پر ایک مفسر کے لیے ان میں اتنا ادراک کافی ہے، جس قدر فہم قرآن میں معاون ہو۔
Flag Counter