Maktaba Wahhabi

226 - 250
تفسیر بالرأی المذموم کی حقیقت ’’مخصوص نظریات کو محض اپنی پسند یا عقل کے مطابق اپنا لینا، پھر تفسیر قرآن سے انہیں ثابت کرنا اور معارض آیات کی معنوی تحریف کرنا۔‘‘ [1] ڈاکٹر محمد حسین الذہبی نے اسے ’’اللون الالحادي‘‘ کا نام دیا ہے۔[2] جبکہ جامعہ ازہر کے استاذ تفسیر ڈاکٹر ابو عمر نادی بن محمود حسن الازہری نے اس مکتب فکر کو ’’منهج المبتدعة والملحدين‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اسے راقم نے اپنے اصل مقالہ میں عقل پرست انحرافی مکتب فکر کا نام دیا ہے۔ [3] تفسیر بالرأی المذموم کا تاریخی پس نظر عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر عصرِ حاضر تک مسلمان کتابِ الٰہی میں غوروفکر کرتے آئے ہیں۔ سلف صالحین کے عہد مبارک میں یہ تدبر قرآن نصوصِ شرعیہ کے ماتحت تھا۔ اس لیے عہد ِ صحابہ و تابعین کے دورِ مسعود میں بھی تفسیرِ قرآن کا دائرہ قرآن و سنت، اقوالِ صحابہ و تابعین اور پھر رائے محمود تک آ کر رک جاتا تھا۔ اگرچہ ان ادوار میں بھی شاذ تفسیری اقوال اور جزوی تفردات موجود ہیں، لیکن ایک مستقل منہج اور مکتب فکر کے طور پر ’’رائے مذموم‘‘ منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اس کے بعد امت میں مختلف فرقے ظاہر ہوئے اور ہر فرقے نے اپنے خاص نظریے کی تائید میں آیت قرآنی کا سہارا لیا اور اس غرض کے پیش نظر بعض قرآنی آیات کے مفاہیم میں شرع سے دور تاویلات اور لغت سے ہٹی ہوئی رکیک توجیہات پیش کیں۔ یہاں تک کہ قرآن مجید ’’متبوع‘‘ کی بجائے ’’تابع‘‘ نظر آنے لگا۔ [4]
Flag Counter