Maktaba Wahhabi

205 - 250
’’جو لوگ کسی جگہ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتے ہیں اور باہم مذاکرہ قرآن کی مجالس قائم کرتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسکین اور رحمت اترتی ہے، ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے سامنے ان کا تذکرہ فرماتا ہے۔‘‘ (3) صحابہ قرآن مجید میں عقل و اجتہاد اور تدبر سے کام لیتے تھے صحابہ کرام نے جہاں اپنی زندگیوں کو قرآن کی روشنی میں سنوارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت میں تزکیہ و تطہیر کی منزلیں طے کیں، وہاں وہ فہم قرآن اور تدبر فی القرآن میں بھی کوشاں رہتے۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ صحابہ کرام کی زبان بھی عربی تھی، وہ اس کی فصاحت و بلاغت کے رموز سے آشنا تھے، جن حالات و واقعات میں نزولِ قرآن ہوا، اس سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ جن نظریات و عقائد اور اعمال و افعال پر قرآن نے بحث کی وہ زیادہ تر ان کے اپنے تھے، ان کی قوم کے تھے یا ان کی اپنی تاریخ میں گزشتہ اقوام کے تھے، یہودونصاریٰ کے عقائد و اطوار کی طرف قرآن نے جو اشارے کیے، ان سے بھی وہ گوناگوں تعلقات کی بناء پر آگاہ تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ برسوں قرآن حکیم پر غوروفکر اور تدبر کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مسلسل آٹھ برس تک سورۃ البقرۃ پر تدبر فرماتے رہے۔ [1] ظاہر ہے یہ اس لیے تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ قرآن میں تبحر حاصل کریں، اسبابِ نزول اور احکام میں نئے نئے استخراج کریں۔ (4) تابعین اور تفسیر قرآن میں عقل و اجتہاد صحابہ کرام کے حلقات دروس سے استفادہ کرنے والے تابعینِ عظام بھی تفسیرِ قرآن میں خوب تحقیق اور عقل و اجتہاد سے کام لیتے۔
Flag Counter