Maktaba Wahhabi

41 - 250
1۔ بمعنی دلیل: کہتے ہیں: ’’ أصل هذه المسئلة الإجماع‘‘، یعنی اس مسئلہ کی دلیل اجماع ہے۔ 2۔ بمعنی قاعدہ: جیسے علم نحو میں کہتے ہیں: ’’ الأصل أن الفاعل مرفوع‘‘، یعنی قاعدہ یہی ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے۔ 3۔ بمعنی حالت اصلی: (استصحاب) اصول فقہ میں کہتے ہیں: ’’ الأصل براءة الذمة‘‘، یعنی انسان کی حالت طبعی و اصلی برأت ذمہ ہے۔ 4۔ راجح: کہتے ہیں: ’’ الكتاب أصل بالنسبة إلي القياس‘‘، یعنی قیاس کے بالمقابل قرآن مجید راجح و قوی ہے۔ 2۔ تفسیر کا لغوی و اصطلاحی مفہوم لفظ ’’ فسر يفسر‘‘ ثلاثی مزید فیہ، باب تفعیل سے مصدر ہے۔ اس کا اصل مادہ ’’ فسر‘‘ (فاء، سین، راء) ثلاثی مجرد میں بھی مستعمل ہے۔ ’’ فَسَرَ يفسر‘‘ برورزن ’’ ضَرَبَ يضرب‘‘ اور ’’ فَسَرَ يَفْسُرُ‘‘ برورزن ’’ نَصَرَ يَنْصُرُ‘‘ دونوں ابواب میں یہ مادہ مستعمل ہے۔ لغوی لحاظ سے تفسیر کی درج ذیل اہم تعریفیں کی گئی ہیں۔ امام سیوطی کی تعریف ’’ التفسير تفعيل من الفسر وهو البيان والكشف ، ويقال هو مقلوب السفر تقول أسفر الصبح إذا أضاء ، وقيل مأخوذ من التفسرة وهي اسم لما يعرف به الطبيب المرض‘‘ [1] لفظ تفسیر ’’ فسر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ واضح کرنے اور کھولنے کو کہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ ’’ سفر‘‘ سے مقلوب ہے، آپ کہتے ہیں ’’ أسفر الصبح‘‘ یعنی صبح روشن ہو گئی، ایک اور قول کے مطابق یہ ’’ تفسره‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اور ’’ تفسره‘‘ سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کے ذریعے طبیب مرض کو پہچانتا ہے۔
Flag Counter