Maktaba Wahhabi

71 - 250
’’اللہ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘ خود قرآن مجید تقویٰ کو نقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔ ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ اور تقویٰ کو ہی نقطہ کمال، جب ایمان و تقویٰ خود قرآن مجید کا اولین تقاضا بھی ہے اور آخر میں مطلوب و مقصود بھی، جب قرآن مجید اس کیفیت کو اپنے فہم کے لیے پہلی شرط قرار دیتا ہے، جب قرآن طے کر چکا ہے کہ مجھ تک پہنچنے کے لیے یہی بنیادی زینہ ہے، تبھی تم میرے احکامات کے ہم گاہ و ہم قدم چل سکتے ہو، تو آخر اس امت کو کون سی مجبوری آن پڑی کہ اب یہ قرآن کو سمجھنے کے لیے عہد ایمان و عہد تقویٰ سے بے نیاز ہو جائے؟ ہمیں کس نے درس دیا ہے کہ ہم صحابہ کو چھوڑ کر فہم قرآن کے لیے مستشرقین و مبتدعین کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں ۔۔۔ وہ جو ایمان و تقویٰ کی کیفیات تو کیا ان کی ابجد سے بھی نابلد ہیں۔ (9) منہج تفسیر بالمأثور بنیادی شرعی تقاضا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ﴾ (البقرۃ:137) ’’اگر وہ تمہارے جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور اگر منہ موڑیں تو صریح اختلاف میں ہیں۔‘‘ صحابہ کے ایمان جیسا ایمان، ان کی اتباع جیسی اتباع، صحابہ کے فہم جیسا فہم اور جس طرح صحابہ دین پر عمل پیرا ہوئے تھے، اس طرح دین پر عمل پیرا ہونا، قرآن کا حکم ہے اور دین کا باقاعدہ مطالبہ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter