Maktaba Wahhabi

98 - 253
تصدیق اور زبانی اقرار سے ہی عقیدہ توحید کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ سب معبودانِ باطلہ کی ڈٹ کر تردید کرنا بھی ضروری ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ لوگوں میں محبت کا معیار ہی عقیدہ توحید ہونا چاہیے، یعنی اہل توحید سے محبت و پیار اور مشرکین اور ان کے شرکاء سے عداوت و بیزاری ہو اور ایسا موحد ہو کہ مشرک کے دل میں کھٹکتا ہو اور یہی معیار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قائم فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ہمارے لیے نمونہ بنا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشاد گرامی بھی اسی مؤقف کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے: ((عن ابي مالك الاشجعي عن ابيه عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم انه قال مَنْ قال لا إلهَ إلّا اللّٰہ، وكفَرَ بِما يعبُدونَ مِنَ دونِ اللهِ، حرُمَ مالُهُ، ودَمُهُ، وحسابُهُ على اللّٰہ)) [1] ترجمہ: ’’ابو مالک الاشجعی سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور اس کا باپ اس کے دادا سے روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرے اور اللہ کے ماسوا جس چیز کی بھی عبادت کی جاتی ہو اس کا انکار کرے تو اس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا اور اس کا حساب اللہ پر ہے‘‘۔ ان مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں، توحید کے متوالے تو بنتے ہیں مگر مشرکین سے نفرت نہیں کرتے، شرک کا رد نہیں کرتے، ان کے شادی بیاہ غیر مسلموں جیسے ان کے مراسم مشرکین کے ساتھ۔ کیسے دو رنگے مسلمان ہیں کہ کلمہ طیبہ کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر ’’جہاں کوئی لگا ہے لگا رہے‘‘ کے سنہری کلیہ پر بھی عمل پیرا ہیں؟ کیا یہ لوگ توحید کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا ایمانی کمزوری ان کا مقدر تو نہیں؟
Flag Counter