Maktaba Wahhabi

45 - 253
تجھے رسوا نہیں کروں گا، اس سے بڑھ کر میری ذلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ میرا باپ ذلیل ہو رہا ہے اور تیری رحمت سے محروم ہے‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ’’میں نے کافروں پر جنت حرام کر دی ہے‘‘ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کہا جائے گا: ’’ذرا پاؤں کے نیچے دیکھو‘‘ وہ دیکھیں گے تو ایک نجاست سے لتھڑا ہو بجو نظر آئے گا، پھر اسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ [1] اس طرح آپ علیہ السلام کے والد کو بجو کی شکل دے کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، تاکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ حزن و ملال جاتا رہے جو آزر کو بشکل انسانی رہنے کی صورت میں جہنمی ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا، تاکہ وہ اس کی بد ہئیت کو دیکھ کر متنفر نہ ہوں اور فطرت ابراہیمی بیزار نہ ہو۔ سفرِ ہجرت اور اس کے نشیب و فراز جب آزر، نمرود اور قوم پر تبلیغ کی ہر حجت قائم ہو چکی تو آپ علیہ السلام کو ہجرت کرنے کا حکم ہوا تاکہ اس باغی قوم پر عذاب الٰہی مسلط کیا جائے تو آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ بنت ہاران اور اپنے بھتیجے سیدنا لوط علیہ السلام کو ساتھ لیا اور فرمایا: (إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴿٩٩﴾) (سورۃ الصافات: آیت 99) یعنی: ’’میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ عنقریب میری راہنمائی فرمائے گا۔‘‘ (وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ﴿٧١﴾)(سورۃ الانبیاء: آیت 71) یعنی: ’’اللہ فرماتے ہیں: ہم نے اس کو اور لوط کو اس مقدس زمین کی طرف بھیج کر نجات دلائی جس میں ہم نے جہانوں والوں کے لئے برکتیں ڈال رکھی ہیں۔‘‘ چنانچہ آپ علیہ السلام دریائے فرات کے کنارے کنارے چلتے ہوئے حران شریف
Flag Counter