Maktaba Wahhabi

196 - 253
دعائیں مانگ مانگ کر لیا تھا پھر بڑھاپے میں ملا تھا اور پھر اکلوتا فرزند تھا اور پھر ابھی باپ کے ساتھ چلنے پھرنے اور معاونت کر کے بڑھاپے کا سہارا بننے کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ ان وجوہ کی بناء پر محبتوں کا اندازہ لگاؤ مگر پھر بھی جب حکم باری تعالیٰ آن پہنچا اور حکم بھی صرف یہ نہ تھا کہ اسے نظروں سے اوجھل کر دیا جائے یا جہاد پر روانہ کر دیا جائے بلکہ حکم یہ تھا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے خود ہی ذبح کر دو۔ تو بیٹے کی محبت اور شفقتِ پدری کو ترجیح نہیں دی۔ بلکہ حکمِ الٰہی کی تعمیل میں ان جذبات کو قربان کر دیا اور رہتی دنیا تک کے لیے یہ سبق چھوڑا کہ لوگو! اولاد کی پرواہ نہ کرو بلکہ حکم ربانی کو اولاد کی محبتوں پر ترجیح دے دو۔ آج جو لوگ اولاد کے ظاہری سکون کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنی زحمت بھی نہیں کرتے کہ بچے کو نیند سے بیدار کر کے صبح کی نماز کے لیے مسجد میں بھیج دیں۔ کیا یہ لوگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے تقاضوں کو فراموش کر کے کامیابی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں؟ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ یہ لوگ بیٹوں کو جہاد کے لیے تیار کر سکتے ہیں؟ یاد رہے ایسے والدین کے لیے یہ اولاد وبالِ آخرت ہے جو اولاد کی محبت کو اللہ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں۔ (ب) اولاد پر والدین کے حقوق 1۔ کمال درجہ کی اطاعت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے ہمیں والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت کا پہلو حد درجہ پایہ تکمیل تک پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔ غور کیجیے آپ علیہ السلام کو والد گھر سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے تو آپ علیہ السلام گھر چھوڑنا، جائیداد قربان کرنا، وطنِ محبوب کو ترک کرنا وغیرہ سب کچھ گوارہ کر لیتے ہیں مگر باپ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ آج بعض بیٹے ایسے بھی نظر آتے ہیں کہ اپنے باپ کو وراثت کے جھگڑے میں قتل تک کر دیتے ہیں۔ کبھی والدین کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ باپ گھر چھوڑنے پر مجبور
Flag Counter