Maktaba Wahhabi

170 - 253
(4) صحیح منہج ہی استقامت کا موجب ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پہلے باپ سے، پھر قوم سے، حتیٰ کہ حاکمِ وقت اور ایک سپر پاور سلطنت سے ٹکر لی، عداوتیں مول لیں، مگر استقامت کا دامن نہ چھوڑا۔ آخر کیوں؟ صرف اسی لئے کہ آپ علیہ السلام کا منہج درست تھا، آپ علیہ السلام دینِ حنیف کے ترجمان تھے، رشدوہدایت کی دولت سے مالامال تھے اور جن تعلیمات کی دعوت دیتے تھے ان پر حد درجہ یقین اور کامل وثوق تھا، اسی لئے تو بڑے دھڑلے سے فرماتے تھے: (يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴿٤٣﴾) (سورۃ مریم: آیت 43) یعنی: ’’اے میرے ابا جان! میرے پاس وہ علم آ پہنچا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا، تو میری اتباع کر لے، میں بالکل سیدھے راستے کی طرف تیری رہنمائی کروں گا‘‘۔ اسی ہدایت اور یقینی سیدھے راستے پر گامزن ہونے کی وجہ سے دنیا کی مخالفتیں آپ علیہ السلام کو ڈگمگا نہ سکیں اور ایک جلتی ہوئی آگ میں چلے جانے میں بھی ناکامی نہ سمجھی، حقیقت یہی ہے کہ حق پر ہونا اور اپنے مؤقف پر مکمل یقین ہونا اور اپنے مسلک پر پوری تحقیق ہونا ہی ثابت قدمی کا ذریعہ بنتا ہے، ورنہ انسان مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بچاتا ہے اور مشن کو خیرباد کہتے ہوئے استقامت سے روگردانی کر بیٹھتا ہے، اگر عقیدہ پختہ نہیں تو ہر مشکل وقت میں پھسل جانا ممکن ترین مرحلہ ہے۔ یہی حق سچ کا منہج اور راسخ عقیدہ ہی سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو ملا تھا جس کی وجہ سے پھانسی کے پھندے کے ساتھ جھولتے ہوئے مسکرا کر فرما رہے ہیں: لست ابالي حين اقتل مسلما علي اي جنب كان للّٰه مصرعي [1]
Flag Counter