Maktaba Wahhabi

261 - 253
یعنی: ’’مجھے قیامت کے اٹھائے جانے والے دن رسوا نہ کرنا کہ جس دن مال و اولاد بھی کوئی فائدہ نہ دے سکے گی‘‘۔ سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کے اس پہلو سے روگردانی کر کے آخرت کی یاد سے غافل لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان خبردار کرنے کے لیے کافی ہے۔ (اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ ﴿١﴾ مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٢﴾) (سورۃ الانبیاء: آیت 1، 2) یعنی: ’’لوگوں کے حساب کتاب کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ غفلت میں روگردانی کر رہے ہیں جو بھی اُن کے پاس رب کی نئی نصیحت آتی ہے تو اُس کو سن کر اس کے ساتھ کھیل بنا لیتے ہیں‘‘۔ 10۔ مسلمانوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرنا ایک اچھے مسلمان کا کردار اسے دوسرے مسلمانوں کے لیے بھلائی پر آمادہ کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان کی بھلائی اور خیرخواہی کے لیے عملاً کوشش کرتا ہے، پروگرام بناتا اور تحریکیں اٹھاتا ہے، پھر یہیں پر بس نہیں، وہ اپنی دعاؤں میں تمام مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے اور اپنی معافی کے ساتھ ساتھ ان کی معافی کا بھی طلبگار رہتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی ایک جامع دعا میں تمام مومنوں کو بخشش کی دعا میں شریک فرما رہے ہیں: (رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾)(سورۃ ابراہیم: آیت 41) یعنی: ’’یا اللہ مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو اس دن کے لیے معاف فرما دے جس دن حساب کتاب ہونے والا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی اس صفت کا ذکر یوں کرتے ہیں: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ
Flag Counter