Maktaba Wahhabi

229 - 253
سلگاتی رہی اسی لیے حتی الامکان تبلیغ کرنے کے ساتھ ساتھ باپ کی ہدایت کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہیں اسی بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾) (سورۃ التوبہ: آیت 114) یعنی: ’’بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ہی بردبار تھے‘‘۔ اسی طرح قوم لوط کی تباہی بھی آپ علیہ السلام پر ناگوار گزری چاہتے تھے کہ کہیں قوم ہدایت پا جائے، اسی لیے فرشتوں پر پورے ترلے لگا رہے ہیں کہ انہیں تباہ نہ کریں تو اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی اسی صفت کا ذکر فرمایا: (فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ ﴿٧٥﴾) (سورۃ ہود: آیت 74، 75) یعنی: ’’جب ابراہیم (علیہ السلام) کا ڈر جاتا رہا اور اس کے پاس (بیٹے) خوشخبری آ گئی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگے، بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ہی بردبار، دردمند اور رجوع کرنے والے تھے‘‘۔ معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کے دل میں انسانیت کے بارے میں ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انسانیت کی خیرخواہی آپ علیہ السلام کی فطرت ثانیہ تھی اور ہر ممکن کوشش کے ساتھ تبلیغ کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اور واقعی ایک داعی اور مبلغ کے لیے لوگوں کے بارے میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ انسانیت کی گمراہی اس پر گراں گزرے اور ان کا اللہ کے غضب سے ہلاک ہو جانا اسے بہت ناپسند ہو، دردمند اتنا ہو کہ لوگوں کی تبلیغ کے جذبات ہمیشہ دل میں ابھرتے رہیں اور اسے تبلیغ کیے بغیر چین نہ آئے، اتنا بےحس نہ ہو کہ لوگ جیسے بھی شرک و بدعات میں مبتلا ہو کر مر جائیں مگر اسے کوئی پرواہ نہ ہو۔ (13) مبلغِ دین کا اخلاق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واسطہ ایک اکھڑ مزاج مشرک باپ سے پڑا مگر پھر بھی آپ
Flag Counter