Maktaba Wahhabi

250 - 253
کہ اسے ترک کر دے، جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے گا اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے گا اور جب عہد کرے تو اسے توڑ دے گا اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ سے کام لے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:(وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿٣٤﴾) (سورۃ بنی اسرائیل: آیت 34) یعنی: ’’اور وعدہ پورا کرو اس کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا‘‘۔ 3۔ بردباری اور نرم دلی قرآن کریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک صفتِ جمیلہ بردباری اور دوسری نرم دلی کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ تذکرہ دو اہم مقامات پر کیا گیا ہے: (1) باپ کی خیرخواہی میں نرم دلی سے کام لے رہے تھے، مگر اس کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو دعا سے منع فرما دیا تو آپ نے بردباری سے کام لیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾) (سورۃ التوبہ: آیت 114) یعنی: ’’سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا صرف اس وعدے سے کی تھی جو کہ اس کے ساتھ کیا تھا، لیکن جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ تو اللہ کا پکا دشمن ہے تو اس سے دستبردار ہو گئے، سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ہی نرم دل اور بردبار تھے‘‘۔ 2۔ اسی طرح جب قوم لوط کو تباہ کرنے کی خبر ملی تو خیرخواہی کے لیے پل گئے اور دل میں نرمی حد درجہ آ گئی اور کوشش کی کہ قوم سے عذاب ٹل جائے اور انہیں توبہ کا موقعہ مل جائے، مگر جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہے جس کے ٹلنے کی کوئی گنجائش نہیں تو بردباری سے کام لیا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
Flag Counter