Maktaba Wahhabi

110 - 253
اس پر نماز جنازہ پڑھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے دعا کریں یا نہ کریں اگر آپ ستر بار بھی ان کے لیے دعا کریں تب بھی اللہ تعالیٰ اُنہیں نہیں بخشے گا، میں ایسا کروں گا کہ ستر سے زیادہ بار اس کے لیے دعا کروں گا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: وہ تو منافق تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھ دی اور ابھی واپس مڑے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ آیت نازل ہو گئی: (وَلا تُصَلِّ على أَحَدٍ منهمْ ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ على قَبْرِهِ) یعنی: ’’ان میں سے اگر کوئی مر جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ پڑھائیں نہ دعاء خیر کے لیے ان کی قبر پر جائیں‘‘ الحاصل سیرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی پیر فقیر یا پیغمبر کسی اپنے یا پرائے کو اپنے اختیار سے نہیں بخشوا سکتا، جس طرح نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو، ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کو نہ بخشوا سکے اور نہ ہی ہدایت دلوا سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر رشتہ داروں کو صاف جواب دیا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرائیوں میں سے عبداللہ بن ابی کو نہ بخشوا سکے نیز اسی طرح کسی کو ہدایت دینا اور دیگر معاملات میں نفع و نقصان، صحت و شفاء اولاد و رزق مدد و نصرت وغیرہ کا بھی کسی کو کوئی اختیار نہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور اسی کے ساتھ مختص ہیں۔ (10) ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے بارے میں حتیٰ الامکان کوشش کی کہ وہ
Flag Counter