والدین کو بھی برا بھلا نہ کہو کیونکہ بدلے میں وہ تمہارے والدین کو برا بھلا کہیں گے جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
((عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ الكبائرِ أن يشتُمَ الرَّجلُ والديهِ. قالوا: يا رسولَ اللَّهِ. وَهَل يَشتُمُ الرَّجلُ والدَيهِ؟ قالَ: نعَم، يَسبُّ أبا الرَّجلِ فيَسبُّ أباهُ، ويشتُمُ أُمَّهُ فيشتُمُ أُمَّهُ)) [1]
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کا اپنے والدین کو گالیاں دینا کبیرہ گناہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو بھی گالیاں دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ اس طرح کہ کوئی آدمی کسی کے باپ کو گالیاں دے تو وہ اس کے باپ کو (جواباً) گالیاں دے گا۔ اور آدمی کسی کی ماں کو گالیاں دے تو وہ اس کی ماں کو گالیاں دے گا‘‘۔
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالواسطہ گالیوں کی مثال سے سمجھایا۔ تو جو ڈائریکٹ والدین کو گالیاں دے، وہ کتنا ہی بدبخت اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے؟ ان لوگوں کی کتنی دیدہ دلیری ہے جو والدین کو براہ راست گالیاں دیتے ہیں اور ان کی اسلامی تعلیمات سے کتنی دوری ہے؟
(3) والدین کے لیے دعاؤں کی برسات کا اہتمام
سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک نیک بیٹے کی حیثیت سے اپنے والدین کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ قرآن کریم سے چار دلائل پیش خدمت ہیں۔
|