Maktaba Wahhabi

167 - 253
یعنی: ’’اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا‘‘۔ مفسرین نے اس کے دو مفہوم بیان کئے ہیں: 1۔ ہمیں کفار کے ہاتھوں شکست نہ دے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کافر فتح یاب ہوں وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ بیٹھیں اور فتح کو سچائی کی دلیل بنا لیں اور اس بھول میں وہ ایمان اور اسلام کی حقانیت کو قبول کرنے سے محروم رہ جائیں اور ہم ان کے لیے اس طرح آزمائش بن جائیں۔ 2۔ ہم کفار کے نرغے میں آ کر مغلوب نہ ہو جائیں اور وہ ہم پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائیں جو ہمیں ایمان سے پھرنے پر مجبور کر دے اور ہمارے پائے ثبات ڈگمگا جائیں۔ بہرحال ہر طرح کے فتنے اور آزمائش سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے اور یہ خواہش ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ ہم پر مصیبت آئے اور ہم صبرواستقامت کر کے ثواب حاصل کریں، کیونکہ استقامت رب تعالیٰ کی خاص عنایت و مہربانی کے ساتھ ہی نصیب ہو سکتی ہے، ہاں البتہ بغیر خواہش کیے جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے، جو سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا اور کامیابی کا راز ہے، بقول شخصے: مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے کروں میں کیا مجھے عادت ہے مسکرانے کی (2) دین کے معاملے میں مصائب پر صبرواستقامت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرتِ مقدسہ کا حسین تقاضا یہ ہے کہ ہر آزمائش پر صبر اور ہر مصیبت کا سامنا جوانمردی سے کیا جائے، دین کی خاطر مصائب پہنچیں تو ہرگز کبیدہ خاطر نہ ہوا جائے۔ جیسا کہ آپ علیہ السلام پر والد، قوم اور حاکمِ وقت کی طرف سے آزمائشیں آئیں، بائیکاٹ ہوا، دشمنیاں پڑیں، مگر آپ علیہ السلام نے ان کے نظریات کو نہ کسی مصلحت کی بناء پر قبول کیا اور نہ ہی مصائب سے شکست خوردہ ہوئے، بلکہ استقامت کا دامن تھامتے
Flag Counter