Maktaba Wahhabi

83 - 253
کا کوئی نمرود ٹھہر سکے نہ کوئی سومنات۔ توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا لہٰذا اس فصل میں ہم توحید کے ان مسائل کا ذکر کرتے ہیں، جن کا پرچار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کیا اور قرآن و سنت سے اِس کی تشریح کرنے میں انتہائی اختصار سے کام لیتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ پر ایمان سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو ایمان باللہ کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تعارف ان الفاظ سے کروایا: (قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٥٦﴾) (سورۃ الانبیاء: آیت 56) یعنی: ’’فرمایا بلکہ تمہارا رب تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: (إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧﴾ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿٨١﴾ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴿٨٢﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 77 تا 82) یعنی: ’’میرا رب وہ ہے جو اکیلا تمام جہانوں کا رب ہے جس نے مجھے پیدا کیا پس وہی میری رہنمائی کرتا ہے۔ وہی مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ اور جب میں مریض پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا اور اسی سے میں توقع رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میری خطائیں
Flag Counter