Maktaba Wahhabi

41 - 253
ٹھکانہ دوزخ ہو گا اور تمہارا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا۔‘‘ نمرود ۔۔۔۔ موت کے دہانے پر اپنے تئیں خدا کہلانے والا نمرود اب اس فکر میں ہے کہ میری حیثیت ختم ہو جائے گی، میری جھوٹی خدائی کے ڈھول کا پول کھل جائے گا، حاکم اعلیٰ اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات کا کون انکار کر سکتا ہے؟ دل میں تو جانتا تھا کہ میری خدائی کس درجہ کی ہے؟ مگر اپنی انانیت کی خاطر ہٹ دھرمی پر تل جاتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑا اور مناظرہ شروع کر دیتا ہے، جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں محفوظ کیا ہے: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّٰهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾) (سورۃ البقرۃ: 258) یعنی: ’’کیا آپ نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑا کیا تھا اس بات پر کہ ابراہیم علیہ السلام کا رب کون ہے اور اس بناء پر کہ اس شخص (نمرود) کو اللہ تعالیٰ نے حکومت دے رکھی تھی، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرا رب وہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے، اس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، [1] ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال کر دکھا، یہ سن کر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ نمرود پر حقائق کی تمام حجتیں قائم ہو چکی ہیں، ایمان قسمت میں نہیں، جبکہ ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہے، بار بار اسے خیال آ رہا تھا کہ میری حکمرانی، میری خدائی،
Flag Counter