Maktaba Wahhabi

125 - 253
(أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿١٩١﴾ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿١٩٢﴾) (سورۃ الاعراف: آیت 191، 192) یعنی: ’’کیا یہ لوگ ان لوگوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ نہ ہی ان کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں‘‘۔ (17) عزتوں کے تاج صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے گلشن سیرت سے ہمیں توحید کا یہ پھول بھی ملتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں ہر لمحہ عزتیں عطا کرنے والی رب تعالیٰ کی ذات ہے، اگر پوری دنیا اکٹھی ہو کر ایک انسان کو ذلت کے گھاٹ اتارنا چاہے تو نہیں کر سکتی، جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے، اسی طرح پوری دنیا کسی کو عزت دینا چاہے تو نہیں دے سکتی، جب اللہ اس کو ذلیل کرنا چاہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام مصر کے سفر میں تھے، عزت کی آزمائش آ گئی، حاکم مصر نے سیدہ سارہ علیہا السلام کو قبضے میں لینا چاہا، ادھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں کہ کوئی ظاہری سہارا نہیں ہے۔ مافوق الاسباب عزت بچانے والے اپنے رب کو پکارنے کے لیے نماز شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور ظالم بادشاہ ایسی قبیح شرارت کرنے سے عاجز آ گیا۔ اسی طرح آپ علیہ السلام آخرت میں بھی عزت کا سوال اللہ ہی سے کیا کرتے تھے کہ: (وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ﴿٨٧﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 87) یعنی: ’’یا اللہ مجھے قیامت کے روز رسوا نہ کرنا‘‘۔ لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام کا حیاتِ آفریں تقاضا ہے کہ عزت و ذلت کے اختیارات اللہ ہی کے ہاتھ میں سمجھے جائیں اور یہ عقیدہ ہو کہ ہر قسم کا وقار، سٹیٹس، اقتدار اور کرسی دینے والا اور چھینے والا آن کی آن میں ذلیل و رسوا اور بے یارو و مددگار کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب العرشِ العظیم ہے۔ مگر بڑی بڑی ڈگریوں والے
Flag Counter