Maktaba Wahhabi

129 - 253
شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٧٣﴾) (سورۃ النحل: آیت 73) یعنی: ’’اور وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ ہی کچھ طاقت رکھتے ہیں‘‘۔ ایک اور مقام پر اٹل فیصلہ فرمایا: (أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ ﴿٢١﴾) (سورۃ الملک: آیت 21) یعنی: ’’اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کہ کون ہے جو پھر تمہیں رزق دے گا؟ بلکہ وہ تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں‘‘۔ (19) مشکلات میں کس کو پکارا جائے؟ عزیز قارئین! آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی امتحانوں، آزمائشوں اور مصائب و آلام کا مجموعہ تھی، مگر آپ علیہ السلام نے ان تمام مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا اور اسی ذات سے لو لگائی، قوم نے آپ علیہ السلام کو چیخا میں ڈالا، اس سے بڑا مشکل وقت اور کیا ہو سکتا ہے؟ مگر آپ علیہ السلام نے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو یاد فرمایا۔ بیوی سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر شام میں عزت و ناموس کی آزمائش پڑی تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا۔ اللہ تعالیٰ نے عزت محفوظ فرمائی۔ قوم اور حکومت کی دشمنی، والد سے بائیکاٹ جیسی مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے، مگر ذرہ بھر بھی متذبذب نہیں ہوئے، اللہ پر توکل بڑھتا گیا مشکلات حل ہوتی گئیں، بیابان جنگل میں اولاد چھوڑی تو بھی اللہ تعالیٰ کو پکارا کہ یا اللہ ان کی حفاظت فرما۔ لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا ہے کہ پوری دنیا دشمن ہو جائے تو بھی توحید کے دامن کو نہ چھوڑا جائے اور تمام مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنا یہ سیرت ابراہیم علیہ السلام کا طرہ امتیاز ہے، مگر آج کتنے ہی لوگ ہیں کہ معمولی سا مشکل مرحلہ آئے تو غیروں کو پکارتے ہیں اور ان سے مدد و تعاون لیتے پھرتے ہیں، بچہ گم ہو جائے تو کوئی مجاور
Flag Counter