Maktaba Wahhabi

32 - 253
شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہو سکتا ہے، میرا رب ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم سبق حاصل نہیں کرتے؟ اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنا رکھا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، اگر کوئی سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو بتاؤ کہ امن کا مستحق کون ہے ان دو جماعتوں (آپ اور مجھ) میں سے؟‘‘ یہ تھی وہ واضح دلیل اور حجتِ قاطعہ جس پر قوم لاجواب ہو گئی، مگر عقل کے ناخن نہ لیے، بلکہ بغض و عناد کا رخ اختیار کیا، لیکن مومن باطل کے عناد کی پرواہ نہیں کرتا وہ تو اپنا مشن جاری و ساری رکھتا ہے، بہار ہو یا خزاں، وہ تو گلشنِ توحید کی آبیاری کرتا رہتا ہے، اب ابراہیم علیہ السلام ان کے بے جان خداؤں (بتوں) کی حیثیت کو بے جان ثابت کرنے کا قدم اٹھاتے ہیں۔ صنم کدہ ہے جہاں ۔۔۔ لا الہ الا اللہ اس قوم میں شرک کی کئی ایک شکلیں تھیں، جہاں وہ قوم تاروں کی پجاری تھی وہاں نمرود کو خدا بھی مانتی تھی، صرف یہی نہیں بلکہ بزرگوں کے نام کی مورتیاں بنا کر ان کی پوجا پاٹ بھی کرتی تھی اور ان موتیوں کا بانی مبانی خود آپ علیہ السلام کا باپ آزر تھا، آپ علیہ السلام کو ان کی جھوٹی خدائی کا پردہ چاک کرنے اور ان کی بے بسی و بے کسی کو آشکارا کرنے کے مواقع وقتاً فوقتاً میسر آتے رہتے تھے، جن میں باپ سمیت قوم سے خطاب فرماتے ہوئے ان کی پوجا اور عبادت کی وجوہات پوچھتے، پھر ان کی تردید احسن انداز میں فرماتے، جن کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے: (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ ﴿٦٩﴾ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٧٠﴾ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ﴿٧١﴾ قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ﴿٧٢﴾ أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ﴿٧٣﴾ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ﴿٧٤﴾
Flag Counter