Maktaba Wahhabi

191 - 253
قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا یہ پہلو ہمیں سبق دیتا ہے کہ اولاد کو نیک بنانے کے خواہشمند احباب اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں میں اپنے ساتھ شریک رکھیں تاکہ وہ بھی نیکیوں کی طرف راغب ہو سکیں یہاں تک کہ نیک عمل ان کی فطرتِ ثانیہ بن جائیں۔ مثلاً نماز کے لیے آئیں تو بچوں کو بھی ساتھ لائیں تاکہ وہ مساجد کے ساتھ وابستہ رہیں، ان کے ہاتھوں صدقہ کروائیں اور اسی طرح باقی امور خیر۔ لمحہ فکریہ ہے ان والدین کے لیے جو خود تو نیکی میں مشغول ہوتے ہیں مگر اپنی اولاد کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جبکہ کاروباری معاملات میں انہیں اپنے سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نورِ چشم کا منطقی انجام گمراہی اور خسارہ آخرت بن جاتا ہے۔ (11) نیکی کے کاموں میں اولاد سے مشورہ کرنا یہ بات تو درست ہے کہ والد سرپرست ہونے کی حیثیت سے تمام معاملات میں بااختیار ہے مگر اپنی اولاد پر ہمیشہ جبراً حکم تسلط کرتے رہنا حکمت سے خالی عمل ہے۔ دنیاوی امور میں بھی اولاد سے مشورہ کرنا ان کی حوصلہ افزائی اور باپ بیٹا کی ذہنی ہم آہنگی کر برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے نیز انسان غلطیوں کے امکانات سے بھی بچ نکلتا ہے جبکہ دینی امور میں اولاد سے مشورہ کرنا تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا راز ہے کیونکہ اس طرح اولاد بھی نیکیاں اور ثواب سمیٹنے میں شامل ہو جاتی ہے، یہی حکمت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مدنظر رکھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ اسماعیل علیہ السلام کو میرے راستے میں ذبح کر دیں تو آپ علیہ السلام نے بیٹے سے مشورہ لیا تاکہ بیٹا بھی اقرار کر کے اتنے عظیم نیک عمل کے ثواب میں شریک ہو جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: (يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ
Flag Counter