Maktaba Wahhabi

168 - 253
ہوئے بغیر کسی خوف و خطر کے اپنے مشن کو جاری و ساری رکھا۔ (3) دین پر استقامت دراصل مکمل فرمانبرداری کا نام ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو فرمانبرداری کا حکم ہوا تو (أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ) (سورۃ البقرۃ: آیت 131) کہتے ہوئے فرمانبرداری کا حق اداء کر دیا، حتیٰ کہ کئی کاموں میں (وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ) (سورۃ البقرۃ: آیت 124) اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی آزمائش بھی کی تو ان میں پورے اترے، اسی پر بس نہیں بلکہ اپنے رب کے احکام کی مکمل طور پر لاج رکھی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 124) یعنی: ’’میں آپ کو منصبِ امامت پر فائز کر رہا ہوں، فرمایا: میری اولاد میں بھی یہ منصب جاری رکھ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کے لئے میرا یہ عہد بالکل نہیں ہے‘‘۔ اب اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ علیہ السلام نے اولاد کے رزق کی دعا مانگی: (وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿١٢٦﴾)(سورۃ البقرۃ: آیت 126) یعنی: ’’یہاں کے رہنے والوں میں سے صرف ایمان والوں کو پھلوں کا رزق نصیب فرما، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ (یہاں میرا قانون یہ ہے کہ ہر مومن و) کافر کو رزق دوں گا، البتہ کافروں کو رزق دینے کے بعد مؤاخذہ کر کے دوزخ میں پھینک دوں گا‘‘۔ گویا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمانبرداری کا حق ادا کر دیا کہ ہر حکم کی تعمیل کی اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ملحوظ رکھا، بس اسی کو ہی استقامت فی الدین کہتے ہیں،
Flag Counter