Maktaba Wahhabi

70 - 253
ایک بھی نہ باقی چھوڑا اور اس سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کو ہلاک کیا یقیناً وہ بڑے ظالم اور سرکش تھے اور موتفكة شہر کو اُسی نے اُلٹ دیا پھر اس پر چھا دیا جو چھا دیا پس تو اپنے رب کی کون کون سی نعمت کے بارے میں جھگڑے گا‘‘۔ دیکھا! صحیفہ ابراہیم علیہ السلام میں کس حیران کن جامعیت و اختصار کے ساتھ اہم مباحث بیان کر دی گئی ہیں، مثلاً انسان کا سعی و عمل اس کے اخروی نتائج اور ان پر مرتب ہونے والی جزاء و سزا کا تذکرہ، مبداء و معادِ انسانیت اور درمیانی زندگی کا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں مکمل اختیار کا ہونا، اقوام گزشتہ اور ان کی بے اعتدالیوں، خدا ناشناسیوں اور ان کا صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جانا وغیرہ پرسوز اور موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ملت ابراہیم علیہ السلام کا اعجاز اور یہودونصاریٰ کا ڈھونگ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے ساتھ تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح میں معرض وجود میں آئی اور عیسائیت اپنے موجودہ مخصوص نظریات و عقائد کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع سماء کے بعد کی پیداوار ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولادیں ان کی اس خانہ ساز یہودیت اور پوپ ساز عیسائیت کی پیدائش تو کجا خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام عرصہ دراز پہلے اس دارِفانی سے کوچ کر گئے تھے۔ مگر علماء یہودونصاریٰ نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کر دی کہ یہ مندرجہ بالا انبیاء کرام علیہم السلام یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق عیسائی تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے علماء یہودونصاریٰ کی اس بددیانتی کو نہ صرف آشکارا کیا ہے بلکہ انہیں کتمانِ شہادت کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑا ظالم ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ
Flag Counter