Maktaba Wahhabi

219 - 253
مزید برآں خدائی کے دعویدار نمرود کو بھی عقلی دلائل سے سمجھایا اور لاجواب کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّٰهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 258) یعنی: ’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا کہ جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہت دے رکھی تھی، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے تو اس نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب تو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اسے مغرب سے طلوع کر کے دکھا تو وہ کافر ششدر رہ گیا اور اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو ہدایت نصیب ہی نہیں کرتا‘‘۔ (6) مبلغ و مناظرہ ایسی دلیل جس پر مخاطب اعتراض کر چکے، اس کی تفصیلات اور باریکیوں میں پڑنے کی بجائے فوراً دوسری قاطع دلیل دے کر اسے لاجواب کر دینا ایک ماہر مناظر کی خوبی ہے، مناظر کو بیدار مغز، صاحبِ فہم و فراست اور حاضر جواب ہونا چاہیے۔ چونکہ مدمقابل باطل پر ہونے کی وجہ سے دلائل و براہین کی کمل سے خالی ہوتا ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ بحث خلط ملط ہو، وہ بات کو خوامخواہ الجھائے گا، بات کا بتنگڑ بنائے گا اور بال کی کھال اتارنے کی پوری کوشش کرے گا۔ تو مناظر کو چاہیے کہ بحث کو معنیٰ خیز اور منطقی انجام تک پہچانے کے لیے الجھنے کی بجائے الگ نیا بامقصد سوال کر دے تاکہ مخالف کا ناطقہ بند ہو جائے۔ اور یہ طریقہ کار ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے ملتا ہے
Flag Counter