Maktaba Wahhabi

124 - 253
(16) موت و حیات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے مرض و شفاء، موت و حیات کا ظاہری سبب ہیں، جس رب تعالیٰ کے ہاتھ میں مرض و شفاء ہے اسی کے اختیار میں موت و حیات اور فنا و بقا ہے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جہاں یہ فرمایا کہ میرا رب مجھے صحت و شفاء دیتا ہے۔ وہاں یہ بھی فرمایا کہ: (وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿٨١﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 81) یعنی: ’’میرا رب وہ ہے، جو مجھے مارے گا، پھر زندہ کرے گا‘‘۔ مارنا اور زندہ کرنا بھی میرے رب کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں، بلکہ آپ علیہ السلام نے تو آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ موت و حیات کا اختیار اللہ کے پاس مانا جائے، کسی بزرگ کی ناراضگی کو جانی نقصان کا سبب نہ سمجھا جائے، اسی طرح قیامت کے دن زندہ ہونے کا عقیدہ بھی رکھا جائے، مشرک لوگ بزرگوں کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ناراض ہو گئے تو اولاد مر جائے گی، وہ نہ دیں گے تو بیٹا نہ ملے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بار بار ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ موت و حیات پر قادر نہیں ہیں۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا ﴿٣﴾)(سورۃ الفرقان: آیت 3) یعنی: ’’انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں، اپنے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں، نہ ہی موت و حیات اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کی ملکیت رکھتے ہیں‘‘۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
Flag Counter