Maktaba Wahhabi

194 - 253
پاس بیسیوں بہانے ہیں۔ ’’اجی بچہ جوان ہو گیا ہے، باپ کے پاؤں کے ساتھ پاؤں مل گیا ہے، اب تو اس کا جوتا مجھے پورا ہوتا ہے‘‘۔ مگر دنیاوی معاملات، کاروباری امور اور انگریزی تعلیم سے کاہلی پر ہم ناراض بھی ہوتے ہیں زدوکوب تک چلے جاتے ہیں، خوب خوب نصیحتیں کرتے ہیں۔ دیکھا! ہمارے نزدیک دین کی قدروقیمت یہ ہے۔ جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا ضروری تقاضا ہے کہ اپنے بڑھاپے اور اولاد کے جوان ہو جانے کے باوجود بھی بچوں کی تربیت کرتے رہنا چاہیے۔ حتیٰ کہ مرتے دم دین پر قائم رہنے کی وصیت بھی کر کے جانا چاہے پھر جا کر کہیں ہمارا فریضہ ادا ہو گا۔ اگر شروع سے ہی دینی منہج پر تربیت کی جائے تو آخری عمر میں اولاد کے بڑے ہو جانے کے باوجود تربیت کرنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں۔ (13) اولاد کے لیے عملی نمونہ بننا چاہیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے فرمایا: (أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٣١﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 131) یعنی: ’’اے ابراہیم (علیہ السلام) مطیع ہو جاؤ فرمایا کہ میں جہانوں کے پروردگار کے لیے مطیع ہو گیا ہوں‘‘۔ چنانچہ آپ علیہ السلام اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں گزارتے ہوئے اولاد کے لیے عملی نمونہ بنے رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی اولاد آپ علیہ السلام کی تربیت پر نافرمانی کی گنجائش نہ نکال سکی۔ بلکہ ہمیشہ فرمانبرداری زندگی گزاری اور دینی امور میں فرمانبرداری کی ایک لازوال مثال قائم کر دی۔ پیغمبر تو ہوتا ہی ایک نمونہ ہے یعنی اس کی زندگی ہمیشہ قابل عمل ہوتی ہے، اسی طرح ایک داعی الی اللہ کو پہلے خود عامل بننے کا سخت حکم ہے، پھر ایک مربی والد کو بھی اولاد کے لیے ان کے سامنے عملی نمونہ رکھنا ضروری ہے، ورنہ تربیت موثر نہیں رہتی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی جوانی میں اپنے کافر باپ آزر کے ادب و احترام میں
Flag Counter