Maktaba Wahhabi

52 - 253
بیوی بچے جیسا بیش بہا اثاثہ بے آب و گیاہ جنگل کے حوالے آخر کیوں؟ سچ ہے کہ انسان جتنا عظیم ہو اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی عظیم ہوتی ہیں، آپ علیہ السلام نے اکلوتا بیٹا دعاؤں سے مانگ مانگ کر لیا تھا، مگر پیدا ہوتے ہی اللہ ذوالجلال کا حکم آتا ہے کہ اسے اور اس کی والدہ کو ویران جگہ پر تنہا چھوڑ دو، جد الانبیاء، پیکر وفاء (علیہ السلام) نے یہاں بھی سرتسلیم ختم کیا اور فارانی پہاڑیوں کی وادئ بطحاء میں کہ جہاں چار سو خشک اور سنگلاخ پہاڑ، کانٹے دار جھاڑیوں کی کثرت اور سینکڑوں میل تک بشر کا نام و نشان نہیں، پانی تلاش کرنے سے نہیں ملتا، دونوں ماں بیٹا کو جنگلات کے حوالے کر کے خیرباد کہہ دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو وہاں چھوڑا جہاں آج کل مسجد حرام واقع ہے اور ان کو ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں آج کل زم زم ہے، اس وقت مکہ میں آدمی کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ ہی پانی تھا، البتہ بیت اللہ کی بنیادوں کے نشان باقی تھے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو ایک تھیلا کھجوروں کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دیا اور واپس چل دئیے، سیدہا ہاجرہ علیہا السلام ان کے پیچھے دوڑیں اور پوچھا کہ اے اللہ کے خلیل! ہمیں یہاں بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو، یہاں تو کوئی انسان بھی نہیں؟ مگر آپ علیہ السلام خاموش رہے، انہوں نے بار بار پوچھا مگر آپ علیہ السلام خاموشی سے چلتے رہے، پھر انہوں نے کہا: اتنا تو بتاؤ کہ کیا آپ ہم پر ناراض ہو کر ہمیں یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم سے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے، تو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے کہا: ’’اچھا پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا‘‘ یہ کہہ کر واپس بچے کے پاس پلٹ آئیں، جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کدا کی راہ میں مقام ثنیہ پر پہنچے تو دونوں
Flag Counter