Maktaba Wahhabi

132 - 253
یعنی: ’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون زیادہ گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں پکارتا ہے جو قیامت تک اسے جواب بھی نہیں دے سکتے بلکہ وہ اس کی پکار سے ہی بے خبر ہیں اور جب لوگ قیامت کے دن اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے‘‘۔ ان آیات بینات کے بعد کسی قسم کی وضاحت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ (20) گناہ صرف اللہ ہی معاف کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ کی خوشی اور ناراضگی کو مقدم رکھنے والا انسان ہمیشہ اپنے گناہوں پر گرفت سے خائف رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید کرتے ہوئے گناہوں کی معافی اپنے رب سے مانگتا ہے اور اپنا ہر نیک عمل اسی کی رضا کے لیے کرتا رہتا ہے، جبکہ ایک مشرک انسان، غیراللہ کا پجاری، جس کے دل میں ہزاروں کا خوف سمایا ہوا ہوتا ہے، اس پر جوں ہی کوئی مصیبت آئے تو سمجھتا ہے کہ میرا مرشد، میرا پیر ناراض ہے جس کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے، پھر فوراً اس کو پکارتا ہے، اس سے اپنے گناہوں کہ معافی مانگتا پھرتا ہے اور کہتا ہے باوا جی معاف کر دیں۔ کاش کہ اس انسان کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید سمجھ آ جائے، وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد و والدین کے لیے بخشش کی دعا مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، خطاؤں کی معافی مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، جنہوں نے اعتقاد رکھا کہ قیامت کے روز میری خطائیں صرف میرا رب ہی معاف فرمائے گا۔ قرآن کریم آپ علیہ السلام کی اس پاکیزہ سیرت پر شاہد ہے کہ انہوں نے دعا کی: (وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ ﴿٨٦﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 86) یعنی: ’’اور میرے باپ کو معاف فرما دے بلاشبہ وہ گمراہ تھا‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا:(رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾)
Flag Counter