Maktaba Wahhabi

44 - 253
فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ﴿٢٧﴾ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٢٨﴾) (سورۃ الزخرف: آیت 26 تا 28) یعنی: ’’ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے فرمایا: ’’جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان بیزار ہوں، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے ہدایت بھی دے گا‘‘ پس آپ نے اس کو اپنے پچھلوں کے لئے کلمہ باقیہ بنا دیا تاکہ وہ شرک سے باز آتے رہیں۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکلتے وقت باپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کے لئے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، مگر جب یقین ہو گیا کہ ہدایت اس کی قسمت میں نہیں، یہ رب کا پکا باغی ہے تو اس وعدے سے بھی باز آ جانے کا اظہار کیا جس کا ذکر سورۃ التوبہ میں اس طرح ہے: (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾) (سورۃ التوبہ: آیت 114) یعنی: ’’ابراہیم علیہ السلام باپ سے کیے گئے وعدے کی وجہ سے اس کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہے، جب آپ علیہ السلام کے لیے واضح ہو گیا کہ یہ تو رب تعالیٰ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے بھی بیزاری اختیار کر لی، بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تحمل والے تھے۔‘‘ روزِ محشر آزر کا حشر ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے والد کو اس حال میں دیکھیں گے کہ منہ پر سیاہی اور گردوغبار چڑھا ہوا ہے، آپ علیہ السلام باپ سے فرمائیں گے کہ میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو؟ باپ کہے گا: ’’آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا‘‘ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے کہیں گے: ’’اے اللہ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن
Flag Counter