Maktaba Wahhabi

227 - 253
کے دن ایک دوسرے سے انکار کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا اور تمہارا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا‘‘۔ یعنی تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی یہ بنیاد ہیں اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری دوستی اور اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ (11) مبلغِ دین اور حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا سامنا اقتدار اعلیٰ کا دعویدار نمرود اپنی طاقت اور حکومت کے بل بوتے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے مجادلے پر اُتر آیا اور اپنی خدائی کا سکہ جبراً منوانا چاہا۔ پوری عوام اور حکومتِ وقت ایک طرف ہے مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اکیلے ایک طرف ہیں، ایک سپر پاور حکومت کے مقابلہ کرتے ہوئے جابر سلطان کے سامنے ڈنکے کی چوٹ کلمہ حق بلند کرتے ہوئے تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ مقتدرِ اعلیٰ ذات باری تعالیٰ ہے نہ کہ نمرود، قرآن مجید میں یہ مجادلہ ان الفاظ سے مرقوم ہے: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّٰهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 258) یعنی: ’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا کہ جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہت دے رکھی تھی، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے تو اس نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب تو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اسے مغرب سے طلوع کر کے دکھا تو وہ کافر ششدر رہ گیا اور اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو
Flag Counter