Maktaba Wahhabi

99 - 253
(7) اللہ سے محبت سب سے بڑھ کر ہونی چاہیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے شرک پر مستقل قائم رہنے اور اسے نہ چھوڑنے کی بنیادی وجہ تمہارا آپس کی محبت میں غلو ہے، کیونکہ اللہ کے ساتھ تمہارا جو تعلق بندہ اور بندگی کا تھا تم نے اس کی لاج نہیں رکھی، بلکہ اس کے مقابلہ میں آپس کے قومی شیرازہ کی محبت کو ترجیح دی ہے، یہی چیز تمہارے شرک پر پکے رہنے کا سبب بنی، بلکہ بذات خود شرک بنی جبکہ نتیجۃً تمہاری یہ دوستی عداوت میں بدل جائے گی، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: (وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللّٰهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴿٢٥﴾) (سورۃ العنکبوت: آیت 25) یعنی: ’’سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش صرف دنیا کی زندگی میں اپنی محبت قائم رکھنے کے لیے کی ہے مگر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے انکاری بن جاؤ گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کرو گے اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہو گا اور کوئی بھی تمہاری مدد کرنے والا نہ ہو گا‘‘۔ یعنی جس طرح مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں تم اسی طرح اللہ کے شریکوں کے لیے آپس میں مشرک بھائی بن بیٹھے ہو، یہی اجتماعیت تمہیں شرک نہیں چھوڑنے دیتی اور غیراللہ کے ساتھ محبت میں غلو کا سبب ہے اور اللہ کی محبت کو غیروں میں تقسیم کرنے کا سبب ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی محبت کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بجاطور ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ سے محبت سب سے زیادہ کرنی چاہیے اور مسلمانوں کا آپس میں محبت کا معیار بھی صرف رب تعالیٰ ہی کی رضا ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں کے ساتھ محبت تب ہی ہو سکتی ہے، جب شریعتِ الٰہی کے مطابق ہو
Flag Counter