Maktaba Wahhabi

96 - 253
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴿١﴾ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَـٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيدٌ ﴿٢﴾)(سورۃ الحج: آیت 1، 2) یعنی: ’’لوگو! اپنے پروردگار سے ڈر جاؤ بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے، جس دن تم اسے دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہو گا‘‘۔ الغرض آخرت پر ایمان لانے والا انسان اگر یوم آخرت کی جواب دہی سے غافل ہو تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے اور ابدی ناکامی کا سبب ہے اور جو لوگ سرے سے ہی مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قائل نہیں اور حساب کتاب کے منکر ہیں، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اللہ تعالیٰ نے آخرت کے بارے میں ان کے اعتراضات کا شافی جواب ان الفاظ میں دیا ہے: (قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ﴿٧٨﴾ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿٧٩﴾) (سورۃ یٰس: 78، 79) یعنی: ’’وہ کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا حالانکہ یہ تو گل سڑ چکی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیں کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی دفعہ پیدا کیا ہے اور وہ تو ہر چیز کی پیدائش کو بخوبی جاننے والا ہے‘‘۔ (6) ابراہیم علیہ السلام کا عقیدہ توحید اور کلمہء شہادت کا مفہوم سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اِن کے شرکاء کا دو ٹوک انکار کیا، فرمایا:
Flag Counter