Maktaba Wahhabi

104 - 253
وَكَفَىٰ بِاللّٰهِ حَسِيبًا ﴿٣٩﴾) (سورۃ الاحزاب: آیت 39) یعنی: ’’وہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کو پہنچاتے ہیں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی سے بھی نہیں درتے اور حساب و کتاب کے لیے اللہ ہی کافی ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سب طاغوتی قوتیں اکٹھی ہو جائیں اور اپنے جتھوں اور طاقتوں سے تمہیں دھمکا رہے ہوں تو بھی ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر مومن بننا چاہتے ہو تو پھر ان سے بالکل نہ ڈرو صرف مجھ سے ڈرو فرمایا: (إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾) (سورۃ آل عمران: آیت 175) یعنی: ’’یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ہی ڈرو‘‘۔ (9) اختیارات و تصرفات کا مالک کون؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام باپ کی ہدایت کے لیے جب پوری کوشش کر چکے، باپ نے گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تو آپ علیہ السلام نے باپ سے وعدہ فرمایا کہ میں آپ کی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہوں گا مگر: (وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِن شَيْءٍ ۖ) (سورۃ الممتحنہ: 4) یعنی: ’’میرے پاس کوئی اختیار اور ملکیت نہیں کہ میں ہر صورت آپ کو بخشوا کر جنت میں لے جاؤں‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس ارشاد گرامی سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کسی پیر فقیر بڑے یا چھوٹے حتیٰ کہ نبی کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں، یہ اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں کہ کسی کو معاف کرے یا نہ کرے، کسی کو بخشے یا نہ بخشے، کسی کو ہدایت دے
Flag Counter