Maktaba Wahhabi

195 - 253
بھی کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ اور ان کے ساتھ احسن اندازِ تکلم اپنایا۔ گویا کہ دنیاوی لحاظ سے ان کی پوری پوری فرمانبرداری کی۔ جبکہ شریعی لحاظ سے وہ اللہ کا باغی تھا لہٰذا اس کی بغاوت ضروری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس نے بھی فرمانبرداری کا حق ادا کر دیا کیونکہ جب آپ علیہ السلام نے بحیثیت بیٹا ایک کافر باپ کی بھی نافرمانی نہیں کی تو کیوں نہ آپ علیہ السلام کی اولاد دین کے معاملے میں آپ علیہ السلام کے حکم پر اللہ کے لیے کٹنے کے لیے تیار ہوتی۔ یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی سکھلائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی مگر سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کو فراموش کر دینے والے والدین یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا بیٹا فرمانبردار بن جائے جبکہ اپنی اولاد کے ہی سامنے بحیثیت بیٹا اپنے باپ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ آج کا باپ تو چاہتا ہے کہ میرا بیٹا سگریٹ نوشی نہ کرے جبکہ خود اولاد کے سامنے سگریٹ پیتا ہے بلکہ اولاد کے ہاتھوں ہی حقہ دھرواتا ہے اور پیتا ہے، یہ باپ چاہتا ہے کہ میری اولاد نمازی بن جائے جبکہ خود مسجد کے قریب تک نہیں جاتا، یہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا قرآن پڑھ جائے مگر اپنا حال یہ کہ بوڑھا ہو گیا ہے مگر ابھی تک قرآن پڑھنا نہیں آتا اور نہ ہی پڑھنے کی جستجو کرتا ہے، اولاد کے سامنے اپنی داڑھی منڈواتا ہے، یہ باپ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا جھوٹ نہ بولے مگر جب دروازے پر دستک ہو تو بیٹے کو حکم دیتا ہے کہ مہمان کو کہہ دو کہ میرا باپ گھر میں نہیں ہے۔ اولاد کو نیک سیرت بنانے کے سہانے خواب دیکھنے والے والدین کو چاہیے کہ سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خود اولاد کے لیے عملی نمونہ بنیں۔ (14) حکمِ ربانی کو اولاد کی محبت پر ترجیح دینا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا یہ پہلو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ بیٹا جو
Flag Counter