Maktaba Wahhabi

172 - 253
(5) تن تنہا حق پر ڈٹ جانا ہی استقامت ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام تبلیغ کے میدان میں تن تنہا تبلیغ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قرآن شاہد ہے کہ قوم نے اپنے خداؤں کو ریزہ ریزہ پایا تو کہا: (قَالُوا مَن فَعَلَ هَـٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٥٩﴾ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ ﴿٦٠﴾) (سورۃ الانبیاء: آیت 59، 60) یعنی: ’’وہ کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حشر کس نے کیا ہے، وہ تو یقیناً کوئی ظالم ہے، کہنے لگے ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ کہتا رہتا ہے اسے ابراہیم کہا جاتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی تنہائی کے باوجود ڈٹ کر تبلیغ کر رہے ہیں، تزلزل میں نہیں پڑے، پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپ علیہ السلام کو ایک امت اور جماعت کی حیثیت دی کیونکہ جتنا کام ایک جماعت اتحاد و اتفاق سے کر سکتی ہے اتنا ہی کام ابراہیم علیہ السلام نے اکیلے ہی کر دکھایا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا للّٰهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٢٠﴾)(سورۃ النحل: آیت 120) یعنی: ’’بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) ایک امت تھے، یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والے تھے اور مشرکین میں سے بالکل نہ تھے‘‘۔ مگر آج کے روشن خیال اور اعتدال پسند کہتے ہیں جہاں کوئی لگا ہے لگا رہے۔ ہم اکیلے کسی کی کیا اصلاح کر سکتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کو بچانا ہو گا تو خود بچا لے گا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ایسے جملے کہہ کر تبلیغ سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور پھر عمل بھی کمزور ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ ہم خود دین کے پابند ہیں اور نہ ہی دوسروں کے خیرخواہ۔ ہم دوسروں کی خاطر تکلیف اٹھانے کے لیے تو تیار ہی نہیں تو پھر استقامت کیسی؟
Flag Counter