Maktaba Wahhabi

90 - 253
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴿١٦٣﴾) (سورۃ النساء: آیت 163) یعنی: ’’ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطاء فرمائی‘‘۔ آسمانی کتب پر ایمان عقیدہ توحید کا تیسرا رکن ہے، سیرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ مذکورہ بالا آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ سابقہ آسمانی کتب مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ تورات: جو کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ 2۔ انجیل: جو کہ عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ 3۔ زبور: جو کہ داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ جبکہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرف بھی کچھ صحائف نازل ہوئے۔ آسمانی کتب پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ سابقہ تمام کتب برحق تھیں اور اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں، ان کی تعلیمات سچی تھیں، جن امتوں پر نازل ہوئیں، ان کے لیے ان پر عمل کرنا لازم تھا اور اب بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کتابوں کو منسوخ کر کے آخری کتاب قرآن کریم نازل فرمائی گئی۔ گویا یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی جامع دعا کا ہی تتمہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 129) یعنی: ’’اے ہمارے رب! اِن میں ایک رسول بھیج جو انہیں میں سے ہو جو اِن کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے کر ان کا تزکیہ فرمائے تو تو غالب حکمت والا ہے‘‘۔ لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام کی رُو سے بھی تمام سابقہ کتب منسوخ ہیں جن پر اب ایمان مجمل طور پر لانا ضروری ہے جبکہ آخری کتاب قرآن حکیم اور الحکمت، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریر جنہیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے، پر ایمان مفصل لانا ازبس ضروری ہے اور اس قرآن کریم کو آخری کتاب اور حدیث رسول
Flag Counter