Maktaba Wahhabi

88 - 253
رسولوں پر ایمان عقیدہ توحید کا دوسرا جزء ہے۔ سیرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ مذکورہ آیات اور احادیث کے حوالے سے رسولوں پر ایمان یہ ہے کہ انبیاء اور رسل کو بشر اور انسان (باقی انسانوں سے افضل) سمجھا جائے، انہیں ’’نور من نور اللّٰه‘‘ کہنا شرک ہے اور یہ ایمان بالرسل میں غلو ہے، اسی طرح رسولوں پر ایمان یہ ہے کہ انہیں مختار کل نہ سمجھا جائے، بلکہ ان کی موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انبیاء علیہم السلام اس سلسلہ میں بے بس ہیں اور کسی طور پر بھی انہیں موت سے دستبرداری نہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد یا پہلے انہیں حاضر و ناضر سمجھا جائے اور رسولوں پر ایمان کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ انہیں عبادت کے لائق نہ ٹھہرایا جائے، بلکہ ان کے رب کو ہر قسم کی عبادت کا سزاوار ٹھہرایا جائے، جس کی عبادت و اطاعت کی تبلیغ ہر نبی نے کی اور اپنی اولادوں کو بھی نصیحت کی اور رسولوں پر ایمان یہ بھی ہے کہ انہیں غیب دان نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) تو فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھ کر اتنا بھی نہ جان سکے کہ یہ فرشتے ہیں یا بشر۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴿٦٩﴾) (سورۃ ھود: آیت 69) یعنی: ’’فوراً ایک بھنا ہوا بچھڑا لائے‘‘۔ مگر انہوں نے نہ کھایا۔ اگر آپ علیہ السلام کو علم غیب ہوتا تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔ رسولوں پر ایمان کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر مجمل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر مفصل ایمان لایا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول مانا جائے۔ لہٰذا آج اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو نبی مانے تو وہ دونوں ایمان سے خارج متصور ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی دوسرے کے قول کو ترجیح دے وہ بھی ایمان سے خارج ہے۔ گویا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم کی یہ وعید کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter