Maktaba Wahhabi

152 - 253
بھون کر نہ لاتے، بلکہ پتہ ہوتا کہ یہ تو فرشتے ہیں۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ کوئی نوری اگر انسانی شکل میں آ بھی جائے تو بھی وہ کھانا پینا اور دیگر تمام بشری صفات سے بالاتر ہوتا ہے، اگر آپ علیہ السلام کو علم ہوتا تو فرشتوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہ رہتی کہ ہم فرشتے ہیں اور قوم لوط علیہ السلام کی طرف آئے ہیں۔ اور ہم آپ کو بچے کی خوشخبری دیتے ہیں، کیونکہ خوشخبری تو اسے دی جاتی ہے جسے پہلے علم نہ ہو۔ اسی طرح اگر آپ علیہ السلام کو علم ہوتا کہ میرا بیٹا اسماعیل علیہ السلام ذبح ہی نہ ہو گا بلکہ اس کی جگہ دنبہ آ جائے گا تو پھر یہ آزمائش آزمائش ہی نہ رہتی۔ بلکہ یہ تو ایک مذاق ہو جاتا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ درخشاں باب سیرتِ بے معنی سا لگنے لگتا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے صرف ولی ہی نہیں بلکہ ولایت سے کہیں بلند درجہء خلت پر فائز ہیں۔ اور پھر نبی بھی ہیں بلکہ جد الانبیاء ہیں۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام کو علم غیب نہیں تو پھر کسی اور کو کس طرح نصیب ہو سکتا ہے؟۔ لہٰذا مخلوق میں سے کسی اور کے پاس علم غیب ہونے کا اعتقاد رکھنا اور دلوں کے حال کا واقف سمجھنا، حساب لگا کر چوری بتانے والا، ہاتھ دیکھ کر قسمت سے آگاہ کرنے والا، فال نکال کر مستقبل کی خبریں بتانے والا سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے۔ قرآن کریم میں غیراللہ کے لیے علم غیب کی نفی تفصیل سے موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر یہ اعلان کروا رہے ہیں کہ اپنے بارے میں علم غیب جاننے کی نفی کر دیں۔ (قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٨﴾) (سورۃ الاعراف: آیت 188) یعنی: ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! یہ اعلان فرما دیں کہ میں اپنی جان کے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ (میرے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے) جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ اور اگر میں علم غیب جانتا ہوتا تو بہت زیادہ بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو صرف ایمان والوں کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے
Flag Counter