Maktaba Wahhabi

148 - 253
صرف اللہ تعالیٰ سے کیا، رزق مانگا تو صرف اللہ تعالیٰ سے، مغفرت مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، قوت فیصلہ مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، عزت مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، آخرت کی نجات مانگی تو صرف اللہ تعالیٰ سے، اپنا تذکرہ خیر مانگا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی سے، حتی کہ دنیا اور آخرت کی جس چیز کا بھی سوال کیا صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کیا۔ کسی بڑے چھوٹے بزرگ کو اس میں اللہ کا شریک نہیں ٹھہرایا۔ سورۃ الشعراء میں ایک ہی جگہ آپ علیہ السلام کا کئی چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال مذکور ہے: (رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿٨٣﴾ وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ﴿٨٤﴾ وَاجْعَلْنِي مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ ﴿٨٥﴾ وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ ﴿٨٦﴾ وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ﴿٨٧﴾ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴿٨٩﴾) (سورۃ الشعرا: آیت 83 تا 89) یعنی: ’’اے میرے رب مجھے قوت فیصلہ عطا فرما۔ اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھ۔ مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا دے۔ اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا۔ اور جس دن لوگ دوبارہ اٹھائیں جائیں اس دن مجھے رسوا نہ کرنا کہ جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی لیکن فائدے والا وہی ہو گا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر آئے گا‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا یہ اسلوب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی ہر چیز کا سوال صرف اللہ تعالیٰ سے کرنا چاہیے۔ کیونکہ حقیقت میں سب کچھ دینے پر قادر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دنیا کی کوئی ہستی یہ اختیار نہیں رکھتی کہ کسی کو اس کے خزانوں سے کچھ دے سکے۔ قرآن حکیم اس بات پر شاہد ہے کہ سب چیزوں کے خزانے صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی انسان کے پاس کسی چیز کے خزانے تو درکنار، اللہ کے خزانوں میں بھی کوئی ملکیت اور اختیار نہیں ہے۔ اگر انہیں اللہ کی طرف سے کسی چیز کا خزانہ مل بھی جائے تو بھی اتنا دریا دلی کوئی نہیں رکھتا کہ اس کو لوگوں میں
Flag Counter