Maktaba Wahhabi

139 - 253
عقل و فکر اور سوچ و بچار کی صلاحیتیں کند ہو کر رہ جاتی ہیں، افسوس کہ اس جذام سے ملتِ بیضاء کے وجود نے بھی سخت تکلیف اٹھائی ہے۔ آئیے اس کو اپنے موضوع میں رہتے ہوئے سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے استفسار کیا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: (نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ﴿٧١﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 71) یعنی: ’’ہم بتوں کی بندگی کرتے ہیں اور ان کے مجاور ہیں‘‘۔ اس پر آپ علیہ السلام نے مزید کریدتے ہوئے فرمایا: (قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ﴿٧٢﴾ أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ﴿٧٣﴾)(سورۃ الشعراء: آیت 72، 73) یعنی: ’’جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکار سنتے ہیں؟ اور کیا وہ تمہیں نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں؟‘‘ غور فرمائیے کہ اگر قوم منفی میں جواب دے تو جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور سارا کچا چٹھا کھل جاتا ہے اور اگر اثبات میں جواب دے تو دلیل پیش کرنا پڑتی ہے، لہٰذا انہوں نے ایک تیسرا راستہ اختیار کیا کہ بات بنی رہے، کہنے لگے: (بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُونَ ﴿٧٤﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 74) یعنی: ’’(ہم کچھ نہیں جانتے) بس ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے ہوئے پایا ہے‘‘۔ قارئین کرام! بات کھل گئی اور مدعا صاف واضح ہو گیا کہ مقلد دلیل و برہان سے تہی دامن ہوتا ہے، شرعی نہ عقلی۔ مقلد کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ جلد ہی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے حتیٰ کہ ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کرتا، اس لیے کہ دلائل کی میز پر وہ ہمت نہیں رکھتا جبکہ اہل
Flag Counter