Maktaba Wahhabi

116 - 253
جواب ہم اپنے کرم فرماؤں پر چھوڑتے ہوئے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کی طرف بڑھتے ہیں، آپ علیہ السلام نے قوم سے پوچھا کہ تم جن کی پوجا کرتے ہو: (هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ﴿٧٢﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 79) یعنی: ’’جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ تمہاری بات سنتے بھی ہیں‘‘۔ مقصد قوم کے احساس خفتہ کو بیدار کرنا تھا کہ اگر وہ سننے کی قوت سے عاری ہیں تو پھر پکانے کا کیا فائدہ؟ ایک دوسرا مقام ملاحظہ ہو، آپ علیہ السلام اپنے والد سے مخاطب ہو کر فرمایا: (يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿٤٢﴾)(سورۃ مریم: آیت 42) یعنی: ’’اے ابا جان! آپ ان کی پوجا کیوں کرتے ہو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ قارئین کرام! اب بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عقیدہ تھا کہ مردے سنتے نہیں، تو مفہوم یہ نکلا کہ جو شخص مردوں کے سماع کا قائل ہے وہ پیغمبروں کے عقیدے سے منحرف ہے۔ ہاں البتہ کچھ لوگ معترض ہوں گے کہ مذکورہ بات تو مورتیوں کی ہے، وہ تو واقعی نہیں سن سکتیں، جبکہ ہم بارگاہِ الٰہی کے محبوب اور مقرب بندوں کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ سنتے ہیں۔ تو ہم جواباً عرض کریں گے کہ حضرت! اتنے عقل کے اندھے تو وہ مشرک نہ تھے کہ خود تراشیدہ مورتیوں کے بارے میں یہ ذہن رکھیں کہ ان میں سماعت اور بصارت کا ملکہ پیدا ہو گیا ہے۔ دراصل ان مورتیوں کے پس منظر میں نیک بزرگوں اور بابوں کا تصور ہی کارفرما تھا، اصلاً تو وہ انہیں کو پکارتے تھے اور ان کے سننے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٩٤﴾) (سورۃ الاعراف: آیت 194)
Flag Counter