Maktaba Wahhabi

106 - 253
یعنی اگر خالص اپنا نسب ہو گا مگر اتباع نہ کرے تو نسب فائدہ نہیں دے سکتا، یہی وجہ ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کنعان کو ہدایت نصیب نہ کر سکے اور نہ وہ ان کے کہنے پر کشتی میں سوار ہوا، باپ کے دیکھتے بیٹا غرقِ آب ہو رہا ہے، باپ نے اللہ تعالیٰ کو پکارا کہ یا اللہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے، لہٰذا اسے بچا لے، مگر اللہ تعالیٰ نے یہی جواب دیا: (قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾) (سورۃ ہود: آیت 46) اللہ نے فرمایا: اے نوح! یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں اور مزید فرمایا کہ آپ مجھ سے بے علمی کی بنا پر سوال بھی نہ کرنا ورنہ جہالت آپ کا مقدر بن جائے گی، پیغمبر بطور ایک باپ اپنے بیٹے کی نجات کا سوال بھی نہیں کر سکتا تو حسب و نسب کی بنیاد پر کامیابی کے خواب دیکھنا یا بے اختیار کو خودمختار بنا کر اس کی آڑ میں عمل ترک کرنا کتنا باطل عقیدہ ہوا؟ اور کیا یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھول گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو فرمایا تھا: ((اِنَّ اَبَا هُرَيْرَةَ رضي اللّٰه عنه قَال قَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم حِيْنَ اَنْزَلَ اللّٰهُ، يا مَعْشَرَ قريشٍ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أنفسَكم من اللّٰهِ، لا أُغْنِي عنكم من اللّٰهِ شيئًا، يا بني عبدِ مَنافٍ ! اشْتَرُوا أنفسَكم من اللّٰهِ، لا أُغْنِي عنكم من اللّٰهِ شيئًا، يا عباسُ بنَ عبدِ المُطَّلِبِ ! لا أُغْنِي عنكَ من اللّٰهِ شيئًا، يا صفيةُ عَمَّةَ رسولِ اللّٰهِ ! لا أُغْنِي عنكِ من اللّٰهِ شيئًا، يا فاطمةُ بنتَ مُحَمَّدٍ ! سَلِينِي من مالي ما شِئْتِ لا أُغْنِي عنكِ من اللّٰهِ شيئًا)) [1] ترجمہ: ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے
Flag Counter