Maktaba Wahhabi

105 - 253
یا نہ دے۔ لہٰذا ان لوگوں کا عقیدہ باطل ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں حضرت بخشوا لیں گے، وہ اللہ کے پیارے ہیں، اللہ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے، یہ لوگ خود اپنے زعم میں ان لوگوں کو اللہ کے اختیارات دے کر ان کی آڑ میں اپنے عمل بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی اونچی سرکار کا دامن پکڑا ہوا ہے، ہمیں عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ ہمیں خود بخشوا لیں گے۔ جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ انبیاء جیسے عظیم المرتبت لوگ بھی دوسروں کو تو کجا اپنوں کو بھی نہیں بخشوا سکتے۔ آپ نے لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ پیر کا بیٹا پیر ہی ہوتا ہے یعنی وہ بھی پہنچی ہوئی سرکار اور اعلیٰ حضرت ہیں، حالانکہ بعض اوقات یہ پیرزادہ بہت بڑا ڈاکو، زانی، شرابی، بدکردار، تارکِ شریعت اور دین سے بیزار ہوتا ہے، مگر پھر بھی لوگوں کے لیے ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتا ہے گویا کہ ان لوگوں نے صرف حسب و نسب کو ہی اخروی کامیابی اور آسمانی بادشاہت میں داخلے کے لیے کافی سمجھ لیا ہے حالانکہ وہاں جو چیز کام آئے گی وہ صرف اور صرف توحید کے بعد کیے جانے والے نیک اعمال ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((وَمَن بَطَّأَ به عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ به نَسَبُهُ)) [1] ترجمہ: ’’اور جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ دے اس کو اس کا حسب و نسب آگے نہیں لے جا سکے گا‘‘۔ بلکہ جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے: (فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ) (سورۃ ابراہیم: آیت 36) یعنی: ’’پس جو میری اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے‘‘۔
Flag Counter