Maktaba Wahhabi

620 - 630
’’إذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا، حتی یقول: حدثنا‘‘ ’’جب اس پر تدلیس غالب ہو تب اس کی روایت صراحتِ سماع کے ساتھ قبول کی جائے گی۔‘‘ (الکفایۃ للبغدادی: ۲/ ۳۸۷، سندہ صحیح) گویا قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ مقبول ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ بھی مقدمۂ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں: ’’إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواۃ الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر بہ، فحینئذٍ یبحثون عن سماعہ في روایتہ ویتفقدون ذلک منہ کی تنزاع عنھم علۃ التدلیس۔‘‘(مقدمہ صحیح مسلم، ص: ۲۲) امام مسلم رحمہ اللہ کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جو راوی کثیر التدلیس ہو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، جس کے لیے انھوں نے ’’عُرِفَ‘‘ اور ’’شُھِرَ بِہٖ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور کوئی راوی تدلیس میں اسی وقت مشہور ہوگا، جب وہ کثرت سے تدلیس کرے گا، گویا قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اور آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ابن ابی خالد کو نسائی نے مطلق طور پر مدلسین میں شمار کیا ہے اور حافظ عجلی نے توضیح فرما دی کہ وہ شعبی سے تدلیس کرتے ہیں۔ اور جو راوی کسی خاص استاد سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے مرویات سماع پر محمول کی جاتی ہیں، چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ذکر من عرف بالتدلیس وکان لہ شیوخ لا یدلس عنھم؛ فحدیثہ عنھم متصل۔‘‘ (شرح علل الترمذي: ۲/ ۸۵۷) ’’وہ مدلسین جو خاص اساتذہ سے تدلیس کرتے ہیں ان کی دیگر شیوخ
Flag Counter