المقدسی رحمہما اللہ تو ان کے حوالے سے عرض ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہنے والوں میں امام اسحاق رحمہ اللہ کا قول پیش کیا ہے۔ جیسا کہ محترم زبیر صاحب نے بھی نقل فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو امام اسحاق رحمہ اللہ نے صحیح قرار نہیں دیا۔ چنانچہ شیخ الاسلام کے الفاظ ہیں:
’’وقولہ في حدیث أبي موسی ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ صححہ أحمد و إسحاق و مسلم بن الحجاج وغیرہم‘‘(المجموع الفتاویٰ: ۲۲/ ۳۴۰)
حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی کے حوالے سے عرض ہے کہ انھوں نے صحیحین کی احادیث کو قطعی الصحت قرار دیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح بخاری میں تو کیا صحیح مسلم میں بھی نہیں، بلکہ سنن نسائی وغیرہ کی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تصحیح میں امام ابو الفضل المقدسی رحمہ اللہ کو پیش نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کی مطلق تصحیح مفسر جرح کے مقابلے میں لائقِ التفات نہیں ہے۔
مصححین کے حوالے سے عرض ہے کہ ان کی تصحیح معتبر ہوگی جنھیں اس علت تک رسائی حاصل ہو مگر اس کے باوجود انھوں نے اس زیادت کی تصحیح کی ہو۔ اور جنھوں نے ان کتب کو مطلق طور پر صحیح قرار دیا ہو، جن میں یہ زیادت مذکور ہے تو اس زیادت کے محفوظ ہونے میں ان کے قول کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
قرائن بھی متقاضی ہیں کہ یہ زیادت غیر محفوظ ہے۔ اور اس کا شاذ ہونا ہی راجح ہے۔
قارئینِ کرام! آپ نے غور فرمایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صرف
|