Maktaba Wahhabi

395 - 630
محترم زبیر صاحب نے اس کے معدلین چھ باور کرائے ہیں، جن کی حقیقت آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ ایسے ضعیف یا کم از کم متکلم فیہ راوی کی روایت شعبہ بن الحجاج، معمر بن راشد، ہشام بن ابی عبداللہ الدستوائی، ابو عوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری، سعید بن ابی عروبۃ وغیرہ کے مقابلے میں پیش نہیں کی جا سکتی، جو امام قتادۃ کے خاص ترین تلامذہ ہیں اور خود بھی ثقاہت کے انتہائی بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔ مستزاد یہ کہ فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے ہاں بھی یہ زیادت صحیح نہیں۔(توضیح الکلام، ص: ۶۷۵۔ ۶۸۱) ڈاکٹر ماہریسین فحل نے بھی اس زیادت کو محل نظر قرار دیا ہے۔(الجامع في العلل والفوائد: ۳/ ۲۲۲) حضرت العلام محمد گوندلوی محدث رحمہ اللہ ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ یہ جملہ ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ صحیح نہیں بلکہ شاذ ہے۔ کیونکہ قتادۃ کے شاگردوں کی ایک جماعت نے اس کا ذکر نہیں کیا صرف سلیمان تیمی نے ذکر کیا ہے۔ سلیمان تیمی اگرچہ ثقہ ہے، مگر ایک جماعت کی مخالفت کی بنا پر اس کی زیادتی شاذ ٹھہری۔ اور متابعت میں جن دو ثقہ راویوں کا ذکر کیا ہے یعنی عمر بن عامر اور سعید بن ابی عروبۃ ان کی حدیث بھی شاذ ہے۔ کیونکہ سعید بن ابی عروبۃ کے شاگردوں کی ایک جماعت نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ صرف سالم بن نوح ہی ذکر کرتا ہے۔ پس اس جملہ کے سعید بن ابی عروبۃ تک پہنچنے میں کلام ہے۔ اگر سعید بن ابی عروبۃ تک یہ جملہ بدونِ شذوذ
Flag Counter