Maktaba Wahhabi

280 - 630
۲۔ قال الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ (صححہ ابن الجارود:۸۴۵، تحقیق سنن أبي داود: ۸۹۹، طبع الریاض) ۳۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔ ’’معمر بن راشد حافظ ہیں۔ انھوں نے سند صحیح طور پر حفظ کی ہے۔ لہٰذا س سے حجت قائم ہوگی۔‘‘ (معرفۃ السنن والآثار: ۶/ ۱۷۰) ۴۔ محدث البانی رحمہ اللہ ’’إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین‘‘(إرواء الغلیل: ۳/ ۳۶۶، صحیح الموارد: ۲/ ۷۲) ۵۔ محدث ابواسحاق الحوینی: ’’إسنادہ صحیح‘‘(غوث المکدود: ۳/ ۱۴۰، حدیث: ۸۴۵) ۶۔ محققین مسند احمد: ’’إسنادہ صحیح‘‘ (الموسوعۃ الحدیثیۃ: ۴۳/ ۱۱۱) ۷۔ علامہ شعیب ارناؤوط: ’’إسنادہ صحیح‘‘ (تحقیق مشکل الآثار: ۱۱/ ۴۳۳) ۸۔ محقق مسند ابن راہویہ۔ ’’صحیح‘‘ (رجالہ رجال الشیخین: ۲/ ۳۲۲) ۹۔ محقق جزء حدیث ابن معین۔ (صحیح غریب: ۱۴۹) ۱۰۔ شیخ ایمن صالح۔ ’’إسنادہ صحیح‘‘ (تحقیق جامع الأصول: ۴/ ۴۴۸) حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے قاعدے کی رو سے یہ حدیث زہری کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار پاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی فائدے سے خالی نہیں کہ شیخ بدر البدر نے زہری کی ایک معنعن روایت پر اس وجہ سے تنقید کی کہ وہ اسے براہِ راست عروۃ سے بیان کرتے ہیں اور کبھی اپنے اور عروۃ کے مابین عبداللہ بن خارجۃ کا واسطہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ واسطہ غمازی ہے کہ زہری نے عروۃ سے تدلیس کی ہے۔ ملحوظ رہے کہ شیخ بدر نے محض زہری کے عنعنہ کو تدلیس قرار نہیں دیا، بلکہ تدلیس کا سبب واسطہ قرار دیا ہے۔
Flag Counter