Maktaba Wahhabi

134 - 630
بیان کیا ہے جیسے اسے سنا ہے۔ ضعیف کی روایت کو رد کرنے کی وجہ اس کی غلطی کا ظنِ غالب ہے، جب اس کے خلاف ثابت ہوگیا تو وہ حدیث صحیح اور قابلِ احتجاج ہوگی۔ رہی ضعیف روایت جب اپنی جیسی ضعیف سے مل جائے تو وہ تقویت نہیں پہنچاتی، ہاںa. قرائن سے واضح ہوجائے کہ حدیث صحیح ہے، ضعیف راویان نے اسے صحیح حفظ کیا ہے، اور اس کی دلیل ثقات کی متابعت ہے۔b. یا ایسے قرائن ظاہر ہو جائیں جو حدیث کو حدِ نکارت سے نکال دیں۔ رہا مطلق طور پر یہ قول کہ ضعیف روایت کی جب اس جیسی ضعیف روایت تائید کرے تو وہ مطلق طور پر حجت ہے، درست نہیں، میں متقدمین اہلِ علم میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے یہ بات کہی ہو، بلکہ ایسی صورت میں متأخرین کی ایک جماعت نے توقف کیا ہے۔ الحسن بمجموع الطرق في میزان الاحتجاج بین المتقدمین والمتأخرین (ص: ۹۳) شیخ عمرو کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جب قرائن حدیث کو حدِّ نکارت سے نکال دیں تو وہ حسن لغیرہ بن سکتی ہے، گویا وہ اس اساس کو منہدم کر رہے ہیں جو انھوں نے خود کھڑی کی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ عمرو کا موقف جمہور محدثین کے خلاف ہے، جیسا کہ آپ پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ ثانیاً: شیخ ابو عبداللہ احمد بن ابراہیم بن ابی العینین نے حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کی حجیت پر ایک کتاب لکھی ہے: ’’القول الحسن في کشف شبھات
Flag Counter